خلافت ثالثہ میں ایک بہت بڑا کام مجالس موصیان کا قیام اور ان مجالس کے ذریعہ قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے نیز اس کی تعلیمات پر عمل کروانے کا انتظام کرنا اور اس غرض سے وقف عارضی کی سکیم کو منظم اور فعال کیا جانا تھا۔

آپؒ نے فرمایا: آج میں موصی صاحبان کی تنظیم (یعنی مجلس موصیان) کا، خدا کے نام کے ساتھ اور اس کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے اجراء کرتا ہوں۔ تمام ایسی جماعتوں میں جہاں موصی صاحبان پائے جاتے ہیں اُن کی ایک مجلس (یعنی مجلس موصیان) قائم ہونی چاہئے۔ یہ مجلس باہمی مشورے کے ساتھ اپنے صدر کا انتخاب کرے۔ منتخب صدر جماعتی نظام میں سیکرٹری وصایا ہوگا………تمام خیر چونکہ قرآن میں ہی ہے اس لئے وہ قرآن کریم کے نور سے پورا حصہ لینے کی کوشش کریں اور ان کو بتایا جائے کہ قرآن کریم کے انوار کی اشاعت کرنا ہر موصی کا بحیثیت فرد اور اب موصیوں کی مجلس کا بحیثیت مجلس پہلا اور آخری فرض ہے اور اس بات کی نگرانی کرنا کہ وقفِ عارضی کی سکیم کے ماتحت زیادہ سے زیادہ موصی اصحاب اور ان کی تحریک پر وہ لوگ حصہ لیں جنہوں نے ابھی تک وصیت نہیں کی اور ان پر یہ فرض ہے کہ پہلے وہ اپنے گھر سے یہ کام شروع کریں حتیٰ کہ ان کے گھر میں کوئی مرد، کوئی عورت، کوئی بچہ یا کوئی دیگر فرد جو اُن کے اثر کے نیچے ہو یا ان کے پاس رہتا ہو ایسا نہ رہے کہ جسے قرآن نہ آتا ہو۔ پہلے ناظرہ پڑھنا سکھانا ہے پھر ترجمہ سکھانا ہے۔ پھر قرآن کریم کے معانی پھر اس کے علوم اور اس کی حکمتوں سے آگاہ کرنا ہے۔                                                                                                                                                                                                                              (خطبہ فرمودہ 5 اگست 1966ء)